فہمیدہ ریاض 28جولائی1945ء کو میرٹھ میں پیدا ہوئیں۔ ایم اے تک تعلیم پائی اور لندن سے فلم تیکنیک میں ڈپلومہ حاصل کیا۔ طالب علمی کے زمانے میں جب وہ پندرہ برس کی تھیں،ایک نظم کہی جو احمد ندیم قاسمی کے ادبی جریدے فنون میں شائع ہوئی۔
فہمیدہ زمانۂ طالبعلمی سے طلبہ کی سیاسی سرگرمیوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتی رہیں۔ ایوب خان کے زمانے میں طلبہ یونین پر پابندی کے خلاف لکھتی رہیں۔ 1967ء میں شادی کے بعد وہ انگلستان چلی گئیں وہاں بی بی سی کی اردو سروس سے وابستہ رہیں۔ پاکستان واپسی پر انہوں نے ایک پبلشنگ ہائوس کھولا۔ایک رسالہ’ آواز‘ کے نام سے جاری کیا۔ حکومتی پالیسیوں پر تنقید کے جرم میں ان پر 14مقدمات قائم ہوئے۔
بائیس سال کی عمر میں اُن کا پہلا شعری مجموعہ’پتھر کی زبان‘ منظر عام پر آیا۔’بدن دریدہ‘ شادی کے بعد انگلینڈ میں ان کے زمانۂ قیام میں شائع ہوا۔ جب جنرل ضیاالحق اقتدار میں آئے تو یہ مجلے ’آواز‘ کی مدیر تھیں۔ فوجی حکومت انھیں اچھی نگاہ سے نہیں دیکھتی تھی۔ یہ ہندوستان چلی گئیں، جہاں ان کا شعری مجموعہ’کیا تم پورا چاند نہ دیکھو گے‘ شائع ہوا۔انھوں نے شیخ ایاز کے کلام اور مثنوی مولانا روم کا بھی ترجمہ کیا۔ ان کی دیگر اہم تصانیف میں ’دھوپ‘، ’حلقہ میری زنجیر کا‘، ’ہم رکاب‘، ’ادھورا آدمی‘، ’اپنا جرم ثابت ہے‘ شامل ہیں۔جنرل ضیاالحق کے انتقال کے بعد فہمیدہ ریاض وطن واپس آ گئیں۔ 21نومبر 2018ء کو لاہور میں ان کا انتقال ہوا۔