Muhammad Izhar ul Haq
اظہار الحق کی شاعری ایک اُجڑا ہوا خیمہ ہے۔ ایک رخسار زیرِ آب ہے۔ اور ایک سفید چادر ِ غم ہے۔ وہ اُس اُجڑے ہوئے خیمے کے نوحے لکھتا ہے اور اسے پھر سے آباد دیکھنا چاہتا ہے۔ اس رخسار زیرِ آب کی حدت محسوس کرتا ہے اور ایک سفید چادرِ غم اوڑھے یوں کپکپاتا ہے جیسے کسی صحیفے کے اترنے کا منتظر ہو۔ وہ اپنی آبائی دھرتی کے بے آب و گیاہ ویرانے میں ایک ایسا کیکٹس ہے جس پر نا قابلِ یقین رنگوں اور حیرتوں کے پھول کھلتے ہیں۔ وہ سرووسمن اور پرائے گل و گلزار کی چاہت میں اپنے کیکر، ببول اور شیشم کو فراموش نہیں کرتا۔ اُس کا وجود خار ہے لیکن اُس کی روح میں بہشتوں کے نظارے سر شام ہیں۔
گارسیامارکیز نے کہا تھا کہ ہر مرد۔ نامرد ہوتا ہے اور پھر ایک عورت آتی ہے جو اُسے مرد بنا دیتی ہے۔ میں صدقِ دل سے یہ سمجھتا ہوں کہ جب شاعری۔ ناشاعری ہوجاتی ہے تو پھر ایک اظہار الحق آتا ہے جو اسے شاعری بنا دیتا ہے۔
مستنصر حسین تارڑ
Showing 1 to 1 of 1 (1 Pages)