فرخ یار کی طویل نظم ‘کاریز’ ہماری سرزمین کے پریوار کی سرگزشت ہے۔ ایسا پریوار جس کا دکھ بانٹنے والا کہیں روپوش ہو چکا ہے۔ فرخ یار کی نظم کا تلازماتی طلسم اس کی اپنی ہڈ بیتی کو اس خطے میں بسنے والے لوگوں کی آپ بیتی میں بدل دیتا ہے، لوگ جنھیں اپنے تہذیبی ماخذ سے محروم کر دیا گیا، جن کے دل و دماغ سے صدیوں کی یادداشت محو کر دی گئی اور جن کے سروں پر نو آبادیاتی جدیدیت کا خول چڑھا دیا گیا۔ باپ کی تلاش ماخذ کی تلاش ہے اور باپ سے جدائی اپنے پورے پریوار سے جدائی۔ فرخ یار اپنے دریائوں، پہاڑوں، چشموں اور اپنے موسموں سے تعلق پیدا کرتا ہے۔ یہ وابستگی، یہ تعلق، یہ جڑت اسے اپنے باپ کے سائے تک پہنچاتی ہے۔ باپ کو یاد کرنا اپنے خطۂ ذات کا سفر کرنا ہے کہ باپ ہی تہذیبی اور ثقافتی مقامیت ہے، جس کے بغیر کوئی قدیم و جدید نہیں۔ کاریز ایک ایسی بے مثال نظم ہے جس میں ہمیں ہماری آنے والی شاعری کے خدوخال نظر آتے ہیں۔
(سرمد صہبائی)
Tags: کاریز