اکثر تجربے میں آیا ہے کہ ہاتھی کے دانت کی طرح شعر بھی سننے میں کچھ اور دکھائی پڑتا ہے، پڑھنے میں کچھ اور۔ لیکن سرورؔ کے حسنِ کلام پر دیدۂ و گوش یا دل و دماغ کی گواہی میں فرق کرنا مشکل ہے، جیسا پڑھتے ہیں ویسا لکھتے ہیں، دیانت اور صداقت سے سوچتے ہیں، خلوص اور درد سے محسوس کرتے ہیں، سہولت اور سلیقے سے اظہار کرتے ہیں، شیریں اور مترنم الفاظ جن میں سجاوٹ تو ہے بناوٹ نہیں ہے، نہ فکر میں کوئی الجھائو ہے نہ جذبات میں کوئی کھوٹ، میٹھی بات کی ہے تو شیریں اور رکھ رکھائو سے کی ہے، تلخ بات کہی ہے تو دو ٹوک اور بے باکانہ کہی ہے، جتنے کم گو ہیں اتنے ہی خوش گو ہیں۔ غزل کے رنگ میں جو ان کی مرغوب صنفِ سخن ہے، حدیثِ دل کے ساتھ ساتھ کشا کش غمِ دوراں بیاں کرنے کی روایت کو بہت خوش اسلوبی سے نبھایا ہے۔ اور نظم میں ابنائے وطن کے درد و کرب کو بیک وقت وفور اور کفایت سے ادا کیا ہے۔
(فیض احمد فیض)
Tags: کلیاتِ سُرور