یہ ایک شاعر کی نثر ہے جو سمجھتا ہے کہ اعلیٰ شاعری کا ایک کمال یہ بھی ہے کہ وہ اعلیٰ نثر بھی ہو۔ علیم نے اپنے عہد کے ہر جینوئن آدمی کو تسلیم کیا اس کی پذیرائی کی چاہے وہ اس کا ہم عصر ہو یا پیش رو بلکہ انھوں نے اپنے سے پہلے والوں پر بھی رائے دی کہ جینوئن آدمی ہی جینوئن کو پہچانتا ہے۔
‘میں جو بولا’ دراصل علیم کی گفتگو ہے۔ اپنے مخصوص ، زندہ اور بے باک لہجے میں، جو ان کی شناخت ہے۔ یہ گفتگو کہیں کسی حقیقی شاعر کا چہرہ دکھلاتی ہے، اس کا تعارف کراتی ہے تو کہیں عبید اللہ علیم انٹرویوز کی شکل میں اپنا آپ بیان کرتے ہیں۔آپ مجھ سے اتفاق کریں گے کہ اس کتاب میں موجود تمام مضامین پکار پکار کر کہہ رہے ہیں کہ ان کا خالق صرف عبید اللہ علیم ہی ہو سکتا ہے۔
( تحسین علیم، مرتب)
Tags: میں جو بولا