اردو کے تنقیدی ادب کی بڑی خوش نصیبی ہے کہ اسے ایسے اُدباء کی سرپرستی بھی حاصل ہوئی جو عربی اور فارسی ادب میں مہارتِ تامہ رکھتے تھے، اور ایسے فضلاء کی بھی جو انگریزی اور مغربی تنقید سے خاص لگائو رکھتے ہیں۔ چنانچہ ہمارے تنقیدی سرمائے میں حقیقت پسندی، ہیئت اور مواد کے نئے تجربے، جمالیاتی، تاثراتی، مارکسی اور سائنسی رجحانات وغیرہ سبھی شامل ہیں۔ لیکن حقیقت یہی ہے کہ معروضی تنقید پر ابھی تک کوئی مستقل کتاب موجود نہ تھی۔ ڈاکٹر وقار احمد رضوی نے اپنی کتاب ‘معروضی تنقید’ سے اس کمی کو پورا کرنے کی کوشش کی ہے اور مختصر طور پر کہا جا سکتا ہے کہ انھوں نے حالیؔ کے کام کو آگے بڑھایا ہے۔ ڈاکٹر وقار احمد رضوی اردو اور عربی دونوں میں ایم اے ہیں۔ اس لیے انھوں نے عربی انتقادیات سے زیادہ سے زیادہ استفادہ کرنے کی کوشش کی ہے اور اس کتاب میں ادب کی ماہیت، تنقید کے مفہوم، شعر کی حقیقت اور ارکانِ نقد پر بہت اچھے ابواب باندھے ہیں۔
(پروفیسر ڈاکٹر غلام مصطفی خاں)
Tags: معروضی تنقید