یہ کہنا کافی نہ ہو گا کہ جیلانی بانو اردو افسانے کی مستحکم اور معتبر آواز ہیں بلکہ یوں کہا جا سکتا ہے کہ وہ ان معدودے چند افسانہ نگاروں میں شامل ہیں جن کی بدولت اردو افسانے کو استحکام اور اعتبار حاصل ہوا ہے۔ ان کی فنی ریاضت و مزادلت ایک طویل عرصے پر محیط ہے جس کے دوران وہ رکی ہیں نہ تھمی ہیں اور نہ ان کا سانس ہی اُکھڑا ہے، بلکہ وہ بڑی نرم روی مگر استقامت کے ساتھ نئی راہوں سے گزرتی ہوئی اَن جانی منزلوں کی طرف قدم برھاتی رہی ہیں۔
جیلانی بانو نے خوب لکھا، اچھا لکھا اور ان کے افسانوں میں تواتر اور تنوع کا ایسا احساس ملتا ہے جو ان کے شاید ہی کسی اور ہم عصر سے حاصل ہو سکتا ہو۔ وہ اپنے معاصروں سے ایک نوع کی مماثلت رکھنے کے باوجود ہجوم سے الگ تھلگ نظر آتی ہیں، لیکن یہ انفرادیت بعض دفعہ لکھنے والے کو کسی نہ کسی طرح سے تنہائی کا اسیر بھی کر دیتی ہے۔ یہ اسیری اور رہائی جیلانی بانو کے افسانوں میں بارہا اپنی موجودگی کا احساس دلاتی ہے۔ اور شاید یہی انفرادیت پسند ادیب کا مقدر ہے جو ازدحام سے دور رہ کر اپنا نقش قائم کرتا ہے۔
(آصف فرخی)
Tags: سوکھی ریت