‘‘جو رہی سو بے خبری رہی’’ معروف شاعرہ ادا جعفری کی خود نوشت ہے۔ کتاب کے ابتدائی صفحات میں مصنفہ نے اپنے بچپن، خاندان اور خاندانی روایات کا جس ہنر مندی اور سلیقے سے تذکرہ کیا ہے وہ قابل رشک ہے۔ ‘‘مرد تھے جن کی جنبش ابرو پر زندگی کی خوشیوں یا محرومیوں کے فیصلے ہوتے تھے اور بیبیاں تھیں جو ان فیصلوں کو دین ایمان کے احکام کا درجہ دیتی تھیں۔’’ کتاب کا یہ حصہ زوال پذیر جاگیردارانہ نظام کی ایسی تصویریں پیش کرتا ہے جن کا اب محض تصور ہی کیا جاسکتا ہے کہ اب نہ جاگیردارانہ نظام باقی ہے اور نہ اس کے لوازمات کہیں نظر آتے ہیں۔ غالباً اس لیے مصنفہ نے اس کہانی کو ایک خاص زمانے کے رنگ تہذیب، طرز فکر اور طریق معاشرت سے دوبارہ ملاقات یا تعارف کا وسیلہ قرار دیا ہے۔ ایک ایسا طرز معاشرت جس میں مرد کو تو ہر طرح سے کھل کھیلنے کی اجازت تھی مگر عورتوں کو گھر کی چار دیواری سے باہر کے مناظر سے آشنا ہونے تک کی اجازت نہ تھی حتیٰ کہ ان پر علم کے دروازے بھی بند تھے۔ ایسے میں مصنفہ نے کس طرح حویلی کے اس حصے تک رسائی حاصل کی جس کے ایک کونے میں زمین پر کرم خوردہ کتابیں، رسالوں اور مخطوطات کا ڈھیر تھا اور کس طرح گھر والوں سے چھپ چھپ کر یہ کتابیں پڑھنا شروع کیا، کس طرح شاعری کا آغاز ہوا، اس گھٹے گھٹے ماحول میں کس طرح تعلیم حاصل کی۔ یہ اور اس طرح کی دیگر باتیں اتنی تفصیل اور عمدگی سے بیان کی گئی ہیں کہ ہر منظر چلتی پھرتی تصویر کی طرح آنکھوں کے سامنے آجاتا ہے۔ بلاشبہ مصنفہ نے نثر میں شاعری کی ہے اور اپنے خیالات و احساسات کو حسین لفظی پیکروں میں ڈھال کر پیش کیا ہے۔
Tags: جو رہی سو بے خبری رہی