آپ سات سمندر پار کر لیں، رابِنسن کروسو کی طرح کسی گمنام جزیرے پر اپنی دنیا آباد کر لیں، شریانوں میں دوڑتا ہوا لہو آپ کا تعاقب کرتا ہے۔ دور دراز رہ جانے والے لوگوں کی پرچھائیاں آپ کے ذہن میں بھنور ڈالتی ہیں اور آپ انہیں لفظوں میں قید کرتے ہیں۔ ایسے ہی راجہ شہزاد نے بھی رہنے کے لیے دنیا کا آخری کونا منتخب کیا۔ وہ نیو زیلینڈ میں آباد ہیں اور شاید عمر بھر وہیں رہنے کا ارادہ ہے۔ ان کی ڈیڑھ، دو اور تین صفحات کی کہانیوں میں سے کردار نکلتے چلے آتے ہیں۔ فاتح مفتوح، ہندو مسلمان، اصیل رذیل، اشراف نورباف، اللہ میاں کی چرّیاں اور دولہ شاہ کے چوہے، بس یوں کہیے کہ کرداروں کی آبادی سی آبادی ہے۔ حیرت ہوتی ہے کہ انہیں یہ سب لوگ اپنی جزئیات کے ساتھ سال ہا سال بعد بھی کیسے یاد رہے۔
وہ قرۃ العین حیدر کو مرشدِ اعظم مانتے ہیں۔ "اگیاری" اس مجموعے میں شامل ان کا ایک ایسا ناولٹ ہے جس پر قرۃ العین کے رنگ کی چھوٹ ہے۔ ایک مٹتی ہوئی قوم، تہذیب اور اس کے بجھتے ہوئے آتش کدوں کی بھوبھل اس ناولٹ میں نظر آتی ہے۔ انہوں نے جس دردمندی سے کراچی کی پارسی اقلیت کے دکھ پروئے ہیں اور پنجاب میں فرنگی پادریوں کے ہاتھوں کرسچن ہو جانے والی برادری کے درد کو محسوس کیا ہے، وہ ان کے نوکِ قلم سے لہو بن کر ٹپکا ہے۔
راجہ شہزاد کی کہانیاں ملال کے مجیٹھے رنگ میں رنگی ہوئی ہیں جیسے ہار سنگھار کی ڈنڈیوں سے رضائی کی فرد رنگی جاتی ہے۔ کراچی کی جمیلہ اسٹریٹ، لاہور کا شاہ عالمی بازار، کوئٹہ کے وفا روڈ اور توغی روڈ، کون سا شہر اور کون سی بستی ہے جو ان سے چھوٹی ہے! ان کے کرداروں کو وہ زخم آئے ہیں جنہیں کوئی مرہم درکار نہیں۔ وقت کی ریت ان کی مٹھیوں سے سرکتی جاتی ہے لیکن انہیں اس کا احساس نہیں۔
راجہ شہزاد خوش نصیب ہیں کہ انہیں ثریا ایسی بیوی اور شعیب گنڈاپور اور شمس حامد ایسے یارِ غار ملے۔ وہ غار کی پناہ میں آنے والے کسی جوگی بیراگی کی طرح ہیں، تب ہی کہانیاں چھپوانے سے شرماتے ہیں۔ وہ اسی طرح شرماتے رہیں اور کہانیاں لکھتے رہیں لیکن لازم نہیں کہ اتنی مختصر کہانیاں لکھیں۔
(زاہدہ حنا)