ہمارے ہاں ہر دور کی ادبی نسل جہاں چند نئے سوالات اٹھاتی ہے، وہیں ایک تازہ جذبۂ بے اختیارِ شوق سے سرشار بیشتر پرانے سوالات کچھ یوں دُہراتی ہے جیسے وہ پہلی بار اٹھائے جا رہے ہوں۔ اسی طرح کا ایک سوال ادب، سماج اور سیاست کے باہمی تعلق کا ہے۔ اب شعر کی بات کریں تو اس کے مقام کا تعین تو ارثر آفرینی اور جمالیات کی کسوٹی پر ہی ہوگا مگر اس کی تحریک جہاں درونِ ذات سے جنم لیتی ہے، وہیں بیرونی کشاکش سے بھی پیدا ہوتی ہے۔ میرے نزدیک یہ کیفیات متصل ہیں نہ کہ متضاد۔ شاید یہی معاملہ نثری اصناف کا بھی ہے۔
سو، اب یوں ہے کہ اپنے اور آس پاس کے غم ہیں جو سمٹ کر اس مختصر کتاب میں یک جا ہوگئے ہیں۔ بقول میرؔ صاحب:
درد و غم کتنے کیے جمع تو دیوان کیا
(حارث خلیق)
Tags: میلے میں