رنگ، فسوں، سیرِ چمن، غنچہ، باغ، پھولوں کی عمل داری، سرشاری، زمزمہ، باد، قہقہے — یہ سارے الفاظ، یہ سب اشارے، یہ تمام علامتیں اور تلازمات احمد عطا کی ایک ہی غزل کے پانچوں اشعار میں اِدھر اُدھر بکھرے ہوئے ہیں۔ اور پھر معلوم ہوتا ہے کہ صنفِ غزل کے جہان میں، وہاں جہاں ہر شعر جہانِ دیگر ہوتا ہے، شاعر نے ایک باہمی تسلسل پیدا کر دیا ہے۔ ہر شعر کی موج الگ بہتی ہے لیکن دوسری موج سے ہم آہنگ بھی ہے۔ استعارہ بدل کر یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ یہاں اشعار کا جو جھرمٹ ہے اس کے تمام ستارے ایک ہی قراں میں آ گئے ہیں — یہ ایک طرح کی سلامت روی ہے، گویا یہ انتشار نہیں بلکہ گونا گونی ہے اور یہاں غزل اور نظم کے درمیان کی فصیل نظر نہیں آ رہی ہے۔ اس ابہام سے شاعر نے دونوں اصناف کو ترقی دے دی ہے — یہ سعد قرانی اور غزلوں میں بھی ہے— ایک جگہ گیت، راگ، دھڑکنیں، پاؤں، رقص، گنگنانا، ان سب کا جھرمٹ ہے۔
سُر اور تال اور اوزان و بحور پر ایسی گرفت آج کل کے بہت کم نوجوان شعرا کو نصیب ہوئی ہے۔ احمد عطا کی فنی پختہ کاری کی ایک اور جگمگاتی ہوئی مثال وہ بارہ غزلیں ہیں جو انھوں نے افضال احمد سید کے لیے لکھی ہیں۔ یہ تمام کی تمام غزلیں رباعی کے وزن پر ہیں — ہر مصرعے میں چار رکن اور بیس ماترائیں۔
رنگِ پر شور میں استعاروں کی وہ کرشمہ سازی ہے جو سبکِ ہندی کا خاصہ ہے اور جو ان اکابرین نے ہمیں اپنی میراث میں عطا کیا ہے، یعنی حقیقت کے استعارے کی کشید اور پھر استعارے کو حقیقت تسلیم کر کے مزید استعاروں کی بر آمدگی۔
میں اردو شاعری کو ایک معجزہ ہی سمجھتا ہوں۔ کہاں اورنگ آباد، دلی، لکھنؤ اور لاہور — اور کہاں ایک چھوٹا سا کنجاہ۔ کہاں سترہویں صدی اور کہاں اکیسویں صدی — کہاں سراج اور میر اور غالب اور اقبال اور کہاں احمد عطا۔ مگر یہاں نہ سن و سال کی تخصیص ہے اور نہ رنگ، نسل اور علاقے کی۔ یہ کیسی ہم آہنگی ہے، یہ کیسی ہم مشربی ہے!
(ڈاکٹر سید نعمان الحق)
Tags: رنگِ پُر شور