پاکستان کے بارے میں بہت کچھ لکھا گیا ہے لیکن بعد از تقسیم کمیونسٹ تحریک یا ملک میں بائیں بازو کی سیاست کے بارے میں بہت ہی کم معلومات دست یاب ہیں۔اس حوالے سے جائزہ لیا جائے تو یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ کامران اصدر علی نے پہلی بار پاکستان میں کمیونسٹ اور مزدور تحریک کے بارے میں ایک جامع اور وسیع تحقیق پیش کی ہے۔مصنف نے اپنی تحقیق میں پاکستان کی تاریخ کے ابتدائی برسوں کا تنقیدی تجزیہ کیا ہے۔انھوں نے۱۹۴۷ میں پاکستان کی تخلیق اور بعد ازاں ،۱۹۷۱میں بنگلہ دیش کی آزادی تک کے دور پر خصوصی توجہ مرکوز کی ہے۔
۱۹۴۷ میں جنوب ایشیائی مسلمانوں کے ایک وطن کے طور پر پاکستان وجود میں آیا تھا۔اس کے بعد سے پاکستان مختلف اتحادوں اور ایک دوسرے سے مسابقت اور مقابلہ آرائی کرنے والے نظریات کے درمیان اپنی حیثیت تبدیل کرتا رہا ہے۔ملک تین بار فوجی تسلط کے کرب ناک دور سے گزرنے کے ساتھ کشمیر سے بلوچستان اور بلوچستان سے وزیرستان تک سنگین جیو پولیٹیکل تنازعات کے تجربے سے بھی دو چار رہاہے۔ ان تمام واقعات کی پیچیدگیوں کو سمجھنا بہت ضروری ہے۔یہ پاکستان کی سیاسی تاریخ کے بڑے اہم پہلو ہیں لیکن اس کے ساتھ ہی یہ امر بھی لازم ہے کہ تاریخ کے اس پورے دور میں پاکستان کی ریاست اور سیاسی و قومی حقوق کے لیے ابھرنے والی اختلافی آوازوں کے درمیان موجود تعلق کا بھی درست ادراک کیا جائے۔پاکستان کی تاریخ کو عموماً ایک متحدہ مسلم قوم پرستی کی عینک سے دیکھا جاتا ہے۔تاہم،مصنف اس روش سے ہٹ کر پاکستان کی تاریخ میں موجود مختلف قومی گروہوں کے درمیان کشیدہ تعلقات کے اسباب کا سراغ لگانے کی کوشش کرتا ہے۔اس کتاب میں پاکستان کی تاریخ کے ان اہم پہلوئوں اور مسائل کا جائزہ لیا گیا ہے جن پر اب تک بہت کم تحقیق کی گئی ہے۔یہ کتاب اس حقیقت کو بھی اُجاگر کرتی ہے کہ پاکستان کی تاریخ محض فوجی انقلابوں،اسلامی شدت پسندی اور دہشت گردانہ سرگرمیوں کا ہی مجموعہ نہیں ہے بلکہ اس کی تاریخ کی نقش گری میں کمیونسٹ دانش وروں اور کارکنوں کی جدوجہد اور سرگرمیوں نے بھی ایک نہایت اہم کردار ادا کیا ہے۔
Tags: سرخ سلام