یہیں انہی شہروں اور گلیوں کے نیم ودریچوں، ٹوٹی کھڑکیوں اور ادھورے دروازوں کے پیچھے قیوم راہی کے کردار زندگی بسر کر رہے ہیں اور وہ جب چاہتا ہے بظاہر ایک عام سے کردار اور معمولی سے واقعے پر ایک ایسی کہانی تعمیر کرلیتا ہے جو بلندبانگ دعویٰ نہیں کرتی، بس غیر محسوس طور پر قاری کے ذہن میں اترتی چلی جاتی ہے اور اس کی نفسیات تک میں نفوذ کر جاتی ہے۔
احمد ندیم قاسمی
قیوم راہی کے یہاں انسان دوستی اور درد مندی کے عناصر جو فنی ضمیر کی بنیاد ہوتے ہیں بہت نمایاں اور متاثر کن ہیں۔ ہم اپنے دکھ سکھ تو بھوگتے ہی ہیں، مگر فنکار بننے کی ٹھان لیں تو ہمیں سبھوں کے دکھ سکھ بھوگتنا ہوتے ہیں۔ رفاقت کی یہی چاہ قیوم راہی کے فن میں واقعاتی تاروپود کی مظبوطی کی موجب ہے۔
جوگندر پال
Tags: آٹھواں سمندر