ژولیاں کی کہانیاں تخلیقی سازشیں ہیں جس میں وہ جانے پہچانے کرداروں کو انجان دنیا میں لے جاتا ہے اور پڑھنے والا سر ہلا کر سوچتا ہے کہ ‘‘ایہہ کیہ ہویا؟’’ اور پھر پڑھتا چلا جاتا ہے۔
‘‘دریدا حرامدا!’’ میں شیخوپورے کا شیدا زندگی کے معانی سیکھنے اور پھر دریدا اپنی ذات کی تلاش میں لاہور پہنچ جاتا ہے۔ اگر آپ کا خیال ہے کہ سب انگریز منحوس ہوتے ہیں تو ژولیاں سٹیفن کو NCA میں لا کر نحوست کی جدلیات کی کہانی لکھے گا۔‘‘مترجمہ’’ میں وہ ایک فیض نما شاعر، لیکن فیض کے دشمن سے روسی میں ایسا عشق کرائے گا کہ آپ کو ‘مجھ سے پہلی سی محبت میرے محبوب نہ مانگ’ میں ایک نیا سُر نظر آئے گا۔ اگر آپ ‘‘ڈائن! ڈائن!’’ تک پہنچ کر تھوڑا ڈریں گے تو پہلی کہانی پر واپس آئیں گے کیوں کہ آپ دریدا حرامدا کو کچھ دیر اور لاہور میں دیکھنا چاہیں گے ۔
اردو اور پنجابی فکشن کی خوش قسمتی ہے کہ اُسے ژولیاں جیسا ‘منحوس انگریز’ میّسرہے۔
محمد حنیف
Tags: دریدہ حرامدا