فرخ یار صاحب کی کتاب اُن کے قاموسی ذہن کی بڑی واضح اور اُجلی تصویر پیش کرتی ہے۔ایک بہت بڑا کینوس ہے جو تاریخ، سماجی عمل، ادب اور سیاست سب ہی ابعاد کا احاطہ کررہا ہے اور ساتھ ہی ساتھ پڑھنے والے کے ذہن پر ایک مبسوط تصویر بھی ثبت کرتا جاتا ہے۔میں اپنے الفاظ میں بیان کروں تو عرض کروں گا کہ اپنے قیام کے بعد سے اب تک پاکستان جس وجودی بحران کا شکار رہا ہے،یہ کتاب اُس بحران کے اسباب کا کھوج لگا کر ہمارے سامنے لے آئی ہے۔فرخ یار صاحب نے جنوبی ایشیا کی مقامیت کے اندر پوشیدہ تاریخی و سماجی عمل کو بغیر کسی تعصب کے سمجھنے کی کوشش کی ہے، وہ بجا طور پر یہ رائے دیتے ہیں کہ پاکستان اپنے اس اساسی سیاسی و سماجی عمل کو سمجھے بغیر اور تاریخ کی اس زرخیز اور معنویت سے پُر تہذیبی شناخت کا انکاری بن کر جب بیرونی حوالوں کو اپنی شناخت کے لیے منتخب کرتا ہے تو یہیں سے یہ اپنی کمزوری کی بنیاد رکھ دیتا ہے۔ ہمارے حکمران اور سرکاری نظریہ ساز تنوع سے پُر اور تخلیقیت سے معمور اپنی تہذیبی اساس کا اعتراف نہیں کریں گے، تووہ اسی طرح ایک کھونٹی سے دوسری کھونٹی تک خود کو باندھتے چلے جائیں گے اور ملک کا وجودی بحران ختم نہیں ہوگا۔
ڈاکٹر سید جعفراحمد
فرخ یار اپنے آس پاس کے خطوں اور گرد و پیش میں بکھرے لفظوں، استعاروں اور تصورات کے منتشرآئینوں کو جوڑکر ہمیں اپنے آپ سے روشناس کراتا ہے۔اس سفر کی آب و ہوا ہمیں اپنایت کے ذائقے سے آشنا کرتی ہے۔ ‘دوراہے’ فرخ یار کا تہذیبی ‘طیرنامہ’ ہے۔
سرمد صہبائی
فرخ یار کی کتاب ‘دوراہے’ برصغیر کے مسلمانوں کو ایک المیئے سے دوچار کرتی ہے۔ایک جانب شاندار ماضی کا فریب ہے اور دوسری جانب موجودہ دور کی پسماندگی۔مسلمانوں کی سوسائٹی میں ثقافتی مفلسی ہے اور شناخت بھی ادھوری ہے۔ جب کوئی سوسائٹی تقسیم ہوکر بکھر جاتی ہے تو اس کی توانائی اور ذہانت ضائع ہو جاتی ہے۔فرخ یار نے اس کتاب میں کوشش کی ہے کہ گمشدہ تاریخ،رنگارنگ کلچر، زبان اور اعتقادی سانجھ کی نشاندہی کرکے گمشدہ شناخت کو از سرِ نو بنیادیں فراہم کی جائیں۔
ڈاکٹر مبارک علی
Tags: دو راہے