میں پچھلے چودہ برس سے اپنی ہی بنائی ہوئی شیلف میں دُھول میں اَٹا پڑا تھا۔ یہ وقفہ میری پہلی کتاب سے دوسری کتاب تک کا ہے۔ میں نے خود کو بیچنے کے لیے شیشے کی شیلف میں سجایا ہوا تھا۔ میں جتنا خریدا جاتا رہا مجھ پر اتنی ہی دُھول جمتی گئی۔
میری نظمیں مجھے آتے جاتے افسردگی سے دیکھتی تھیں۔ میرے شعر مجھ سے خفا تھے اور غزل___ غزل نے تو مجھے پہلے بھی کبھی منہ نہیں لگایا تھا۔ مجھے پھپھوند لگ گئی تھی۔ اونگھتے چراغ کے صفحے مکڑی کے جالے بن گئے تھے۔ پھر ایک روز میری ایک نظم نے مجھے اس شیلف سے باہر نکال لیا۔ نہ جانے وہ مجھے بچانا چاہتی تھی یا خود کو۔ مجھے شیلف سے باہر نکالا، مجھ پر جمی چودہ سال کی گرد کو جھاڑا، مجھے صاف کیا، چمکایا اور مجھے گلے سے لگالیا اور میں رو پڑا۔ میری نظم بھیگ گئی۔ چودہ سال شیلف کی گرد میں سانس لیتے لیتے میرے گلے میں خراشیں پڑ گئی تھیں۔ وہی خراشیں میں نے اس کتاب میں انڈیل دی ہیں۔!
علی عمران
Tags: خراشیں