جب بھی ملک میں غیر آئینی حکومتیں قائم ہوتی ہیں، پوری قوم جبر اور تشدد کی لپیٹ میں آجاتی ہے۔ جبر، خوف اور ہراس کے ساتھ ساتھ تمام محرومیوں کا احساس شدت سے ہونے لگتا ہے۔ تب کچھ سرفروش اپنا سر، ہتھیلی پر رکھ کر انقلاب کے لیے میدان میں نکل آتے ہیں۔ ایاز بھی ایسا ہی سرفروش ہے، وہ اپنا سر دھرتی پر قربان کرنے کے لیے تیار ہے مگر وہ سر کی سلامتی کو بھی مفید سمجھتا ہے، وہ اسے کار آمد بنانا جانتا ہے..کیوں کہ اسے سر ہی سے سیکڑوں باتوں کا سامنا کرنا ہے، جسم ہی کے بل پر آزادی کی جنگیں جیتنی ہیں۔ سر اتنا سستا نہیں کہ اسے بغیر کچھ حاصل کیے ضائع کر دیا جئے۔ قوم کی تقدیر بدلنے کے لیے ایاز کی ظلم سے جنگ جاری رہی۔ اسی جرم کی پاداش میں انھیں ساہیوال جیل کی کال کوٹھڑی کا مُنہ دیکھنا پڑا۔
جیل کی سلاخیں بھی ان کی زبان پر مہر نہ لگا سکیں اور کلمۂ حق جاری رہا۔ ساہیوال جیل کی ڈائری اسی جہد کا حصہ ہے جو انھوں نے اپنے قلم کے ذریعے جاری رکھا۔
یہ ڈائری جہاں ایاز کے قیدو بند کی داستاں ہے، وہیں اپنے وقت کی تاریخ بھی ہے، جہاں ظالم و جابر کے خلاف للکار ہے، وہیں دوستوں کے لیے محبت نامہ بھی، جہاں ماضی کی روداد ہے، وہیں مستقبل کا آئینہ بھی۔
Tags: ساہیوال جیل کی ڈائری