سلمان انصاری کا ڈکش، کیمیا سے سیمیا، کے حدوں میں کیسے داخل ہو جاتا ہے۔ اس کی بری وجہ اُن کی نظموں میں شعور و لاشعور کے درمیان کا ملگجا اندھیرا اُجالا ہے۔ ذہن و دل کے درمیان جو جھٹپٹے کا سماں ہے، سلمان انصاری کی شاعری اُسی جھٹپٹے سے طلوع ہوتی ہوئی دکھائی دیتی ہے۔ ایسا ڈکش شاید ایسے ہی تحت الشعور کے ملگجے اُجالے میں ممکن ہے اور شاید یہی وجہ ہے کہ سلمان انصاری کی شاعری میں ، لفظ خواب اور اُس کی کیفیت جابجاپائی جاتی ہے۔ اس مقام پر سنائی دینے والی آوازوں پر اُنھیں دھوکا ہوتا ہے کہ یہ بانگِ جرس ہے یا پازیب کی جھنکار۔ کمال یہ ہے کہ اُن کے ساتھ ساتھ قاری بھی اُسی تحت الشعور کی فضا میں پہنچ جاتا ہے۔ یہ فضا اپنے الفاظ و بیان کا سلیقہ خود پیدا کرلیتی ہے۔
جاوید اختر
Tags: سیمیا گر