افتخار عارف کی شاعری خوش بخت ہے کہ اس پر خوش عقیدگی کے طفیل باب العلم وا ہے، اور مدینۃ العلم کی خوشبوئیں اور رنگ اس میں رچے بسے ہیں۔ اس کی شاعری اس لحاظ سے منفرد ہے کہ شاعر اپنے ذاتی خساروں کے لیے مدینۃ العلم سے مدد مانگتا ہے، لیکن انھیں وہ اجتماعی خساروں کے تناظر میں دیکھتا ہے، اور اس طرح وہ انسانیت دوستی کی عالمگیر آفاقی اقدار کی پاسداری کرتے ہوئے، مقدس بستی میں انسانی تہذیب کے فراواں سرمائے سے استفادہ کرتا ہے۔ اس کی شاعری میں مناجات کا رنگ گہرا ہوتا جا رہا ہے، اور وجد کی کیفیت پیدا ہو رہی ہے۔ افتخار عارف کی شاعری تمام عالم اور حلقہ دام خیال میں انطباق پیدا کرنے کی کامیاب کوشش ہے، اور اس امر کا ثبوت ہے کہ فن موجود سے جنم لیتا ہے لیکن تخلیق قائم بالذات ہے۔
(امین مغل)
Tags: جہانِ معلوم