افتخار عارف اردو شا عری کے عہدِ حاضر میں سب سے نمایاں اور معتبر نقیب کے طور پر سامنے آئے ہیں۔ وہ کائنا ت کے افشا ہونے والے رازوں سے بھی آگاہ کر رہے ہیں اور ان مسائل اور مصا ئب سے بھی جن سے کرۂ ارض پربسنے والے کروڑوں ا نسان دوچار ہیں۔ افتخارعارف نے ہجر کا درد بھی جھیلا ہے اور ہجرتوں کا بھی۔ ان کی شاعری مجبوروں، بے کسوں، بے بسوں کو مصائب کا ثابت قدمی سے مقابلہ کرنے اور ان کے خلاف احتجاج کرنے کاحوصلہ دیتی ہے۔
افتخار عارف کے ا ظہارِ بیان میں لکھنؤ کا بانکپن بھی ہے اور اردو زبان کی شعری روایات کی پاسداری بھی___ اور اِن سب سے بڑھ کر خانوادہ رسالت کی دل داری بھی۔
(حسین نقی)
افتخار عارف کے حصے میں جو شہرت اوراہمیت ان کے پہلے مجموعے‘‘مہر دونیم’’(1984ء) سے آئی،ا س میں کمی نہیں آئی۔ اس میں اضافہ ہی ہوا ہے۔یہ خوش نصیبی ہے مگراتفاقی نہیں ہے۔وہ عرصے سے لکھ رہے تھے مگر پہلی کتاب چالیس سال کی عمر میں شایع کی۔ ہمیں نہیں معلوم کہ انھوں نے جو لکھا وہ سب اعلیٰ معیار کا تھا مگر ہم یہ پورے وثوق سے کہہ سکتے ہیں کہ جو شایع کیا ،وہ اوّل درجے کا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی ادبی شہرت زوال کا شکار نہیں ہوئی۔وگرنہ ہمارے زمانے میں کتنے ہی شعرا ،عام وخاص میں مقبول ہوئےمگردیکھتے ہی دیکھتے، زمانے نے انھیں فراموشی کے اندھے غار میں دھکیل دیا۔ ان کی مقبولیت موسمی تھی ۔ شعروادب کا موسم بدلا تو ان کی مقبولیت بھی خزاں زدہ پتوں کی مانند جھڑ گئی۔ افتخار عارف کی مقبولیت ،زمانے اور ادب کے آتے جاتے موسموں اوررجحانات سے ماورا ہے۔
افتخار عارف کی شاعری، ایک بحران سے نبرد آزما ہونے کا نتیجہ ہے۔یہ بحران معمولی نہیں ہے۔ نقادوں نےاسے ہجرت، دربدری، بے گھری کہہ کر بحران کی نشان دہی کی ہے، لیکن یہ خود بحران نہیں، بحران کے مظاہر اور علامتیں ہیں۔ یہ بحران خود ماضی کے بے گھر ہونے کا بحران ہے،جس سے افتخار عارف مخصوص انداز میں بر سرِپیکار ہوئے ہیں۔ ظاہر ہے اس کی نوعیت شخصی نہیں ہے۔ یعنی یہ کسی ایک شخص یا کسی ایک شاعر کا بحران نہیں ہے۔ یہ بہ یک وقت اجتماعی ،شعری اور ثقافتی ہے۔
(ناصر عباس نیّر)
Tags: سخن افتخار۔ کلیات افتخار