دیوانِ حلاج کی شاعری ایک ایسے زاہد کی تخلیق ہے جسے فنا کے درجے پر مقیم ہونے کا شرف حاصل تھا۔ یہ مناجات اور نظمیں ولولہ انگیز محبتِ الٰہی سے لبریز ہیں اور اُن کیفیات اور مقامات کو بیان کرتی ہیں جن سے گزر کر انسان ایک ایسے مقام پر پہنچ جاتا ہے جہاں وفورِ محبت میں اُس کی ذات محو ہو جاتی ہے اور اُس کے لفظ حِکمت اور نُور کے ازلی سرچشموں سے منسلک ہو کر کائنات کے سربستہ رازوں کی نقاب کشائی کرنے لگتے ہیں۔
اس کلام میں جہاں ایک انسان کے عزم، ہمت اور عشقِ صادق کا نُور موجود ہے وہیں اِس پکار کی عمیق گہرائیوں میں ایک ایسا سناٹا بھی ہے جو روح کو تھرتھرا دیتا ہے۔ ایسی خالص توحید جس میں غیر کا شائبہ تک موجود نہ ہو اور ایسا عشق جس نے دوئی کا خاتمہ کر دیا ہو یقیناً انسان کے لیے ایک بھاری بوجھ ہے۔ یہ شاعری اسی ماورائی بوجھ کو سہارنے کی جستجو اور اسی غیر معمولی عزت افزائی کا رزیہ ہے۔
یہ کلام ایک ہزار سال سے زیادہ عرصے سے اسلامی تصوّف اور فکر کے مرکزی دھارے میں شامل رہا ہے۔ مسلمانوں کی کوئی زبان ایسی نہیں ہے جس کے ادب میں حلاج کے کلام اور فکر کی بازگشت موجود نہ ہو۔ اُردو میں حلاج کی شاعری کے حوالے سے جو خلا موجود تھا، یہ دو زبانی مجموعہ اُسے پُر کرنے میں معاون ثابت ہوگا۔
Tags: دیوان منصور حلاج