اندمال (1985ء) اور انتساب (1997ء) کے بعد حمیراؔ کا تیسرا شعری مجموعہ ’’بہت سے کام کرنے ہیں‘‘ آپ کے ہاتھ میں ہے۔ اس میں شامل نظمیں بھی موثر اور لائقِ داد ہیں تاہم ان کا فطری جھکائو غزل ہی کی طرف دکھائی دیتا ہے۔ ان کی غزل میں تخلیقیت، ریاضت اور تہہ داری کا ایک دلکش امتزاج ملتا ہے۔ یہاں لفظوں کے دروبست کا سلیقہ محض قادر الکلامی سے عبارت نہیں بلکہ حُسنِ ذوق اور شدّتِ احساس کا بھی آئینہ دار ہے۔ وہ ادب کو ایک مُبہم سیّال کے بجائے زندگی کا دوٹوک مگر تخلیقی عکّاس بنانا چاہتی ہیں۔ تضادات ان کی نظر میں کسی بھی تصویر کو مکمّل کرتے ہیں۔ چنانچہ تشنگی کے چاروں طرف پانی، اور بے چہرگی کے گرداگرد آئینوں کا اہتمام کرتی ہیں۔ کلاسیکی مثالوں اور استعاروں کے پہلو بہ پہلو ان کی غزل میں الماری میں دھرے خالی برتن اور میزوں پہ سرکتی فائلیں بھی نظر آتی ہیں اور ایک ایسا برجستہ لہجہ جو آپ کے دل سے بات کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔
؎
بہت سے غیر ضروری لوگ بھی گونج اُٹھے
اس ایک یاد کی زنجیر کو ہلاتے ہوئے
؎
ایک نادیدہ تسلی نے مرے لوگوں کو
شدتِ جبر کے حالات میں بھی شاد رکھا
؎
ثبات ایسا کہ ٹھہری ہوئی ہیں آوازیں
سکوت ایسا کہ خالی مکان بولتا ہے
اس تازہ مجموعے کی پذیرائی میرے لیے باعث ِ مسرّت اور اعزاز ہے۔
خورشید رضوی
Tags: بہت سے کام کرنے ہیں