ان نظموں میں سجاد ظہیر کا سارا ذہنی رویہ شعری پیکر میں ڈھل گیا ہے۔ ان نظموں میں آدرش کو پانے کی خواہش بھی ہے، انسانوں کی نفرتوں کو محبتوں میں بدل دینے کی آرزو بھی ہے، گزرتی ساعتوں کو روکنے کی التجا بھی ہے اور سارے ایشیا کو رنگ و بو سے اور سب کے دلوں کو امن و مسرت سے معمور کر دینے کی امنگ بھی۔ محبوبہ کے ماہتابی عکس کو سنہری شراب پر دیکھنے کی تمنا بھی ہے اور برسات کی رات میں شاعر کے آنگن کا راستہ بھول جانے والی لجاتی مسکراتی کلی کی شکایت بھی۔ نائلونی عورتوں اور موم کی پتلیوں کی تصنع سے نفرت بھی اور تیتوف اور لینن سے محبت بھی۔
(سحر انصاری)
Tags: پگھلا نیلم