‘‘پہلی عالمی جنگ کو تو دوسری عالمی جنگ نے بھلا دیا۔ مگر دوسری عالمی جنگ کو بھولتے وقت لگا۔ اُس سے بھی لمبا وقت لگا ہے ہندوستان کی تقسیم کو بھلانے میں۔ ستّر سال ہوئے اور اب بھی جب ہم آزادی کی بات کرتے ہیں تو پہلے تقسیم کا نام آتا ہے۔
یہی کہتے ہیں: ‘پارٹیشن میں یوں ہوا اور یوں ہوا!’
دو لوگ کے اتنے بڑے migration کی دوسری مثال نہیں ملتی اِتہاس میں! لیکن ہم لوگ اُن زخموں کو دَبا کے بیٹھ گئے اور بات نہیں کی۔
پشتیں گزر گئیں لیکن وہ بھڑاس اب تک سینوں میں سُلگتی ہے۔ اپنی زمین سے اُکھڑے ہوئے وہ لوگ ابھی تک بسے نہیں۔
‘‘دو لوگ’’ ایسے ہی کچھ لوگوں کی کہانی ہے جو کیمبل پُور سے نکل کر ہندوستان پہنچے اور اب تک بھٹک رہے ہیں، ستّر سال ہوئے۔ مَیں اُن میں بہت لوگوں سے ملا ہوں۔ جگہ جگہ۔ ہندوستان کے شہروں میں بھی، اور ہندوستان، پاکستان کے باہر بھی ___ یہ کِردار فرضی نہیں ہیں۔ خیالی نہیں ہیں۔ ہاں یوں ضرور ہوا ہے کہ کچھ شخصیتیں ایک دوسرے میں جذب ہوگئیں ہیں کیوں کہ اُن کے درد ایک ہی جیسے تھے۔ آلفانگر کا شہر جسے ایک انگریز نے نام دیا تھا، وہ کوٹا کے پاس اب تک موجود ہے۔ اور وہاں ‘بے بے’ کے پریوار والوں سے ملا ہوں۔ کوٹا کے جیلر صاحب سے میری مُلاقات اب تک ہے۔ ہاں کچھ نام جان بُوجھ کر بدل دیے ہیں۔
بٹوارے کی اذیتوں پر بہت کہانیاں اور ناول لکھّے جاچُکے ہیں، میرا مقصد صرف اُن رفیوجیوں کی اذیت بیان کرنا تھا، جو ذہنی اور جذباتی طور پر ابھی تک بسے نہیں۔ جن کو ابھی تک بارڈر کی لکیروں نے کلائی سے پکڑا ہوا ہے۔
”ہاتھوں نے دامن چھوڑا نہیں، آنکھوں کی سگائی ٹوٹی نہیں
ہم چھوڑ تو آئے اپنے وطن، سرحد کی کلائی چھوٹی نہیں! “
گلزار
Tags: دو لوگ