‘‘یار جُلا ہےگلزار کی پچھلی آدھی صدی میں پھیلی ہوئی شاعری کی روشنائی سے نکلا ہوا ایسا نجی متن ہے، جسے میں نے اُن کے ڈھیروں چھپے ہوئے مجموعوں میں سے اپنی پسند کی کچھ نظموں، شعروں، گیتوں اور غزلوں کی شکل میں چُنا ہے۔ ‘یار جُلاہے’ اُن کی نادر تخلیقیت اور اپنے انداز سے ایجاد کی ہوئی اردو اور ہندی کے آمیزش سے بنی اُن کی شاعری یا کویتائی کا سندر نمونہ ہے۔
گلزارؔ زندگی کو لمحہ لمحہ توڑ کر جینے میں یقین کرتے ہیں۔ ان کے یہاں رشتے اتنے بڑے اور وسیع ہیں کہ پورا آکاش ہی ڈھک لیں۔ حِسّیت ہے، جو اتنی سیّال ہے کہ اس میں چاند کی کشتی چل سکتی ہے۔ خواہشیں، سُکھ، حقیقت ، نیندیں، سپنے، اشتیاق، محبت، یادیں اور رشتوں کی گنگناہٹ کو ان نظموں اور غزلوں میں اتنے قرینے سے بُنا گیا ہے کہ لگتا ہی نہیں کہ وہ ایک شاعر کے قلم سے اپنا کردار پاتی ہیں، بلکہ اُنھیں پڑھتے ہوئے ہمیشہ یہ محسوس ہوتا ہے کہ وہ کسی نیک جُلا ہے کی دلی کیفیات کے دھاگے سے بُنی گئی ہیں۔ گلزارؔ کویتائوں کو رچتے ہوئے اپنے شاعر کے لباس سے نکل کر جُلاہے کہ روح میں اتر گئے ہیں۔’’
یتیندر مشرا
Tags: یار جلاہے