‘‘ترکش غم جاناں اور غم دوراں کے تیروں سے پر ہے۔ بچپن کی شیریں یا تلخ یادیں ہر ادیب یا شاعر کے لیے دیرپا ثابت ہوئی ہیں۔ جاوید اختر کی چند ایسی نظمیں جو ان کے زخم خوردہ جذبات اور احساس کی آئینہ دار ہیں شفاف آتم کتھا کے طور پر پڑھی جاسکتی ہیں۔
اس وقت جب کہ مصنوعی سیارے ذہن شوئی اور دروغ گوئی کے مقصد سے خریدے جا رہے ہیں انسانیت کُش نظریات کے خلاف سنگھرش میں جاوید جن کے ’’ترکش‘’ میں رنگ و چنگ حرف و صوت سب موجود ہیں۔ اپنی ماں کی یہ توقع پوری کرسکتے ہیں کہ وہ فرار کے قائل نہیں ہوں گے اور ڈٹ کر لڑیں گے ۔
جب سے کسی نے
کرلی ہے سورج کی چوری
آؤ
چل کے سورج ڈھونڈیں
اور نہ مِلے تو
کرن کرن پھر جمع کریں ہم
اور اِک سورج نیا بنائیں (صبح کی گوری)
ترکش جدید اردو شاعری کی ایک اہم دستاویز ہے۔’’
(قرۃ العین حیدر)
Tags: ترکش