’’سبطِ حسن صاحب کے ادبی مضامین کا مطالعہ اگر ان کی دیگر، فکری و تہذیبی موضوعات پر لکھی گئی کتابوں کے تناظر میں کریں تو ان ادبی مضامین کی معنویت میں کہیں زیادہ اضافہ ہو جاتا ہے۔ان سب کتابوں کے موضوعات مختلف ہونے کے باوجود ان میں ایک فکری ارتباط، ایک نظریاتی رو، ایک اسلوب تحقیق، اور فکر و نظر کے مشترک پیمانے دریافت کرنا چنداں مشکل نہیں۔ سبط حسن صاحب سائنسی طرز فکر، عقلیت پسندی اور روشن خیالی کے علمبردار ہیں۔ لیکن ان کی یہ تینوں خصوصیات یارجحانات ایک مرکزی فکری سانچے کا حصہ ہیں اور یہ سانچہ مارکسزم کے بنیادی اصولوں سے مرتب ہوا ہے۔ دوسرے لفظوں میں ان کی روشن خیالی اور عقلیت پسندی بھی مارکسزم ہی کے ذیل میں آتی ہے۔ وہ اسی بنیادی نظریاتی فریم ورک میں رہ کر ماضی و حال کے رجحانات اور معاشرتی ارتقا کا مطالعہ کرتے ہیں۔
تاریخ اور سماج کے حوالے سے سبطِ حسن صاحب کا جو طرزِ فکر ان کی کتابوں سے اجاگر ہوتا ہے، یہی ان کی بنیادی فکری قوت ہے جس سے ان کے ادبی تصورات کی بھی آبیاری ہوتی ہے۔ جیسا کہ قائرین دیکھیں گے کہ زیرِ نظر کتاب میں شامل ان کے مضامین کے پیچھے ایک مؤرخ اور ایک ماہر بشریات (anthropologist)کا ذہن کار فرما نظر آتا ہے۔‘‘
Tags: ادیب اور سماجی عمل