ویہ ایک ایسی سنجیدہ موضوع کی حامل مگر دلچسپ، رومانہ پرور، معلوماتی کتاب ہے جسے قاری ایک دفعہ شروع کرکے ختم کیے بغیر نہیں رہ سکتا۔ دکن کی خوشگواریادوں کے نام معنوں ہے۔ اس میں اس معاشرہ کا تذکرہ ہے جو اب قصہ ٔ پارینہ بن کر رہ گیاہے۔ یہ کتاب دیکھ کر ہمیں بے اختیار یہ شعریاد آتا ہے ؎
تازہ خواہی داشتن گرد اغہائے سینہ را
گاہے گاہے بازخواں آں قصۂ پارینہ را
اس کے مطالعہ کے بعد در حقیقت یادوں کے داغ لو دینے لگتے ہیں اور ایک کیف آگیں جذباتی آنچ کا احساس رگ رگ میں سرایت کر جاتا ہے۔
مصنف نے حیدر آباد کے معاشرے اور تہذیب او ررسم و رواج کی نسبت اپنے مشاہدات بے حد فنکارانہ انداز میں بیان کیے ہیں۔ اس کتاب کی ایک قابلِ ذکر بات یہ ہے کہ مصنف نے کسی بات کے بیان میں بھی لگی لپٹی سے کام نہیں لیا۔ اپنی رائے کا پوری بے باکی کے ساتھ اظہار کیا ہے۔ عیوب و اوصاف کے تذکرے میں کسی ہچکچاہٹ یا اجتناب کا اظہار نہیں کیا۔ اس کے ساتھ ہی مصنف کا خلوص اور انسان دوستی اور ترقی پسند قوتوں سے اس کی ہمدردی اور تائید کتاب میں ہر مقام پر نمایاں ہے اور ہر واقعہ کے بیان سے مترشح ہوتی ہے۔
(ماہنامہ ’پگڈنڈی‘امرتسر، جون۱۹۶۷ء)
Tags: شہرِ نگاراں