ظرافت و بصیرت، تفکّر و تفنّن، مشاہدے اور مطالعے کا جو حسین اِمتزاج مشتاق احمد یُوسفی کے یہاں ملتا ہے، وہ اُردو مزاح میں ایک قابلِ قدر اِضافہ ہے۔
کلاسیکی روایت اور دانشِ حاضر نے یوسفی کے مزاح کو شگفتگی اور شائستگی بخشی ہے۔ اس کے اسلُوب کی گھلاوَٹ اور گھایل لہجے کا ٹھہرائو، ضبط کی اُس راہ کی نشاندہی کرتا ہے جس سے وہ اپنی کُلاہ کَج کیے گزرگیا ہے۔ اِس کتاب کو کہیں سے کھولیے ہر صفحے کو باغ و بہار پائیں گے۔
کتب فروشی، سگ بیتی، آلُو اور بِھنڈی کا معرکہ، مَوت کی رُسوائیاں، تصویرِ بُتاں کے دِلکش خطوط، کوہساروں کی سُہاگ رُت، پروفیسر کی دوزخ، بائی فوکل برزخ___ یوسفی کا کینوس رنگارنگ ہی نہیں، وسیع بھی ہے___ گِردو پیش کی ساری تابانی اور تشنگی کو اپنے نیم گرم، گاتے گنگناتے رنگوں میں سمیٹے ہوئے۔
وارداتِ مُضحک، قولِ مُحال، خیالِ معکُوس، تحریف، ہیرا تراش فِقرے، کیری کیچر، امریکی مُبالَغہ، انگریزی کسربیانی، سخن گسترانہ___ اس کے ترکش میں ہر ایک تِیرہے، بجُز ناوکِ دُشنام۔
یُوسفی کے مزاح میں تازگی اور تابندگی ہے۔ وہ الفاظ سے نہیں کھیلتا مگر اُن کی کاٹ سے واقف ہے۔ اسے گمبھیر سے گمبھیر بات کو ہلکے پُھلکے انداز میں کہنے کا ڈھب آتا ہے۔
Tags: خاکم بدہن