ایک ایسی خاتون خانہ کا تصور کیجے جِن کی عمر ستّربرس سے زائد ہے اور جنھوں نے ساری زندگی امورِ خانہ داری کی نذر کر دی۔ ان کی زندگی کے دو ہی مقصد تھے۔ بچوں کی بہترین تربیت اور مصافِ زندگی میں شوہر کی پروانہ وار رفاقت۔ ان دونوں مقاصد میں انھیں مثالی کامیابی حاصل ہوئی۔ بچے اعلیٰ تعلیم حاصل کرکے اپنی اپنی دنیائوں میں کھو گئے اور یگانۂ روزگار شوہر ادب اور زندگی کے میدانوں میں اپنے پیچھے کامیابیوں اور کامرانیوں کی داستانیں چھوڑ کر اس منزل کی طرف روانہ ہوگیا جو ہر انسان کا مقدر ہے۔ یہ خاتون جب ایک بھرپور زندگی گزار کر تنہا روی کے سفر کے دوران اپنے آپ سے ہم کلام ہوئیں تو انھوں نے محسوس کیا کہ وہ تنہا نہیں ہیں۔ یادوں کا ایک ہجوم ہے جو چراغوں کی صورت ان کے راستے کو روشن کر رہا ہے۔
یہ کتاب مروجہ کتابی زبان میں نہیں لکھی گئی۔ مصنفہ نے اپنی روز مرہ کی زبان میں گفتگو کی ہے۔ اسلوبِ بیان ایسا دل کش ہے کہ پڑھنے والا ‘‘وہ کہیں اور سنا کرے کوئی’’ کے طلسم میں اسیر ہو جاتا ہے اور اسے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ وہ کوئی کتاب نہیں پڑھ رہا، مصنف کی زبان سےان کی باتیں سن رہا ہے۔ سن ہی نہیں رہا، بیان کردہ واقعات کو اپنی آنکھوں سے دیکھ بھی رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب اس کتاب کا کچھ حصہ رسالہ ‘‘افکار’’ میں قسط وار شائع ہوا توادبی حلقوں میں اسے اردو میں اپنی نوعیت کی منفرد تحریر قرار دیا گیا۔ ایسی کتابیں کبھی کبھار ہی وجود میں آتی ہیں۔
(مشفق خواجہ)
Tags: ہم سفر